Suna Hai Log Usay Aankh Bhar K Dekhte Hain By Ahmed Faraz

Sunā Hai Jab Se Hamā.il Haiñ Us Kī Gardan Maiñ
Mizāj Aur Hī Laal O Guhar K Dekhte Haiñ

Sunā Hai Chashm-e-tasavvur Se Dasht-e-imkāñ Meiñ
Palañg Zāviye Us Kī Kamar K Dekhte Haiñ

Sunā Hai Us Ke Badan Kī Tarāsh Aisī Hai
Ki Phuul Apnī Qabā.eñ Katar K Dekhte Haiñ

Vo Sarv-qad Hai Magar Be-gul-e-murād Nahīñ
Ki Us Shajar Pe Shagūfe Samar K Dekhte Haiñ

Bas Ik Nigāh Se Luttā Hai Qāfila Dil Kā
So Rah-ravān-e-tamannā Bhī Dar K Dekhte Haiñ

Sunā Hai Us Ke Shabistāñ Se Muttasil Hai Bahisht
Makīñ Udhar Ke Bhī Jalve Idhar K Dekhte Haiñ

Ruke To Gardisheñ Us Kā Tavāf Kartī Haiñ
Chale To Us Ko Zamāne Thahar K Dekhte Haiñ

Kise Nasīb Ki Be-pairahan Use Dekhe
Kabhī Kabhī Dar O Dīvāar Ghar K Dekhte Haiñ

Kahāniyāñ Hī Sahī Sab Mubālġhe Hī Sahī
Agar Vo Ḳhwaāb Hai Tābeer Kar K Dekhte Haiñ

Ab Us Ke Shahr Meñ Thahreñ Ki Kuuch Kar Jaayeñ
‘Farāaz’ Aao Sitāre Safar Ke Dekhte Haiñ

Ahmed Faraz

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپکو برباد کر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شگف
سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام و فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے حشر ہے اس کی غزل سی آنکھیں
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اس کی
سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کی سیاہ چشمگی قیامت ہے
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے آئینہ تمسال ہے جبیں اس کی
سو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں

سنا ہے جب سے ہمائل ہیں اسی گردن میں
مزاج اور ہی لال و گوہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے چشم تصور سے دشت امکاں میں
پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں

وہ سرو قید ہے مگر بے گل مراد نہیں
کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں

بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا
سو راہ رواں تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت
مکیں ادھر کے جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں

رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں

کیسے نصیب کہ بے پیراہن اسے دیکھے
کبھی کبھی درو دیوار گھر کے دیکھتے ہیں

کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی
اگر وہ خواب ہے تعبیر کرے کے دیکھتے ہیں

اب اس کے شہر میں ٹھہریں کہ کچھ کر جائیں
فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں۔۔۔۔

احمد فراز

You may also like...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *